Article , poetry, biographies, book review, travelogue

Full width home advertisement

ہماری ضرورت۔۔۔ کتابیں اور درخت

 ہماری ضرورت۔۔۔ کتابیں اور درخت

 ہماری ضرورت۔۔۔ کتابیں اور درخت!



زندگی کے دو لازوال سوتے، دو ابدی خزانے، دو ایسی عظیم نعمتیں جن کے بغیر انسان کی جسمانی و روحانی بقا ممکن نہیں—کتابیں اور درخت! یہ دونوں نہ صرف ہماری فکری اور جسمانی بالیدگی کا ذریعہ ہیں بلکہ ان کی عدم موجودگی ہمارے انحطاط اور زوال کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ بدقسمتی سے، ہم نے دونوں سے روگردانی کی، نتیجتاً گھٹن، زوال، اور تباہی ہمارا مقدر بنی۔

کتابیں—روح کی غذا

کتابیں علم و دانش کے وہ چراغ ہیں جو صدیوں سے انسانیت کی رہنمائی کرتے آئے ہیں۔ ان کی روشنی میں ذہن و دل کی ظلمت دور ہوتی ہے، فکر و نظر کی زمین زرخیز ہوتی ہے، اور تہذیب و تمدن کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ یہی وہ صحیفے ہیں جن میں ماضی کی بصیرت، حال کی آگہی اور مستقبل کا لائحہ عمل محفوظ ہے۔

لیکن افسوس! آج ہم نے ان علمی سوتوں کو ترک کر دیا، انہیں شیلفوں اور الماریوں کی زینت بنا دیا، اور ان کے جواہر پاروں کو گرد و غبار میں دفن کر دیا۔ ہماری زندگی کا دستور اب انسائیکلوپیڈیاز، تحقیقی مقالے، یا ادبی شہ پارے نہیں، بلکہ چند لمحاتی خوشیوں کے عادی مصنوعی ذرائع ہیں۔ وہ معاشرے جو کتاب سے منہ موڑتے ہیں، ان کی فکر مردہ ہو جاتی ہے، ان کی تہذیب کھوکھلی ہو جاتی ہے، اور ان کے افراد صرف سائے بن کر رہ جاتے ہیں۔

درخت—زندگی کا سانس

درخت محض سبزے کا نام نہیں، بلکہ یہ ہمارے جسم و جان کی بقا کے ضامن ہیں۔ یہ وہ سایہ دار دستِ شفقت ہیں جو زمین کو جنت نظیر بناتے ہیں، جو ہوا کو معطر کرتے ہیں، جو پرندوں کو آشیانے اور انسانوں کو راحت و سکون عطا کرتے ہیں۔

افسوس! ہم نے ان زندگی بخش درختوں کو بےدردی سے کاٹ ڈالا، ان کے جڑوں کو اکھاڑ کر کنکریٹ کے جنگل آباد کر دیے۔ نتیجتاً، ہماری زمین بنجر ہو گئی، آب و ہوا مسموم ہو گئی، اور قدرتی توازن درہم برہم ہو گیا۔ آج جب ہم آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں، جب موسموں کی شدت ہماری برداشت سے باہر ہو گئی ہے، جب زمین کی زرخیزی ختم ہو رہی ہے—تو کیا ہم اپنے کیے پر نادم ہیں؟

پلٹنے کا وقت!




ہماری تباہی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے ان دو محسنوں سے رشتہ توڑ لیا—ہم نے کتابوں کو ترک کر دیا اور درختوں کو کاٹ ڈالا۔ ہمیں اپنی کھوئی ہوئی متاع کو واپس پانا ہوگا۔ ہمیں کتابوں کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانا ہوگا، ان کے حرف حرف سے روشنی کشید کرنی ہوگی، اپنی تہذیب، اپنے تمدن، اور اپنی شناخت کی بازیابی کے لیے ان سے رشتہ استوار کرنا ہوگا۔

اسی طرح ہمیں درختوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا، اپنی زمین کی زرخیزی کو بحال کرنے کے لیے شجرکاری کو فروغ دینا ہوگا، اپنے شہروں اور دیہاتوں میں سبزے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ ہر کاٹا گیا درخت ہمارے جسم سے نکالی گئی سانس کی مانند ہے، اور ہر لگایا گیا درخت زندگی کی طرف ایک نیا قدم ہے۔


کتابیں اور درخت وہ آکسیجن ہیں جو نہ صرف ہمارے جسم و روح کی حیات ہیں بلکہ ہماری تہذیب کی ضامن بھی۔ جب تک ہم ان سے جڑے رہیں گے، علم و دانش کی روشنی ہمارے ذہنوں کو منور کرتی رہے گی اور فطرت کی شادابی ہمارے ماحول کو خوشگوار بناتی رہے گی۔ ہمیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا، اپنی اقدار کی حفاظت کرنی ہوگی، اور ایک ایسے مستقبل کی بنیاد رکھنی ہوگی جہاں کتابوں کے علم اور درختوں کی چھاؤں میں انسانیت ایک نئی زندگی جی سکے۔

No comments:

Post a Comment