Article , poetry, biographies, book review, travelogue

Full width home advertisement

ڈوڈہ کے پہاڑوں سے دہلی کے میدانوں تک: ایک یادگار سفر

ڈوڈہ کے پہاڑوں سے دہلی کے میدانوں تک: ایک یادگار سفر

ہر سفر ایک کہانی رکھتا ہے، ایک ایسی کہانی جو منزل سے زیادہ راستوں کی سرگوشیوں میں قید ہوتی ہے۔ میرا سفر ڈوڈہ کے سرسبز پہاڑوں سے نکل کر دہلی کے پُرہجوم میدانوں تک کا تھا—ایک ایسا سفر جو صرف جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ ایک جذباتی اور فکری تغیر بھی تھا۔

پہاڑوں کی گود میں الوداعی لمحے ڈوڈہ، جہاں پہاڑ بادلوں سے کھیلتے ہیں اور دریاؤں کی سرگوشیاں رات کی خاموشی میں گونجتی ہیں۔ جہاں صبح کی چمکدار دھوپ درختوں پر سنہری چادر بچھا دیتی ہے اور شام کے وقت جب سورج پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے آسمان پر سرخ اور نارنجی رنگ بکھیر دیے ہوں۔

                                     شیواہ گاؤں 

جانے سے پہلے، میں نے اپنے گاؤں کے آخری کنارے پر کھڑے ہو کر ان پہاڑوں کو دیکھا جو ہمیشہ میرے محافظ رہے۔ نرم ہوا میرے چہرے کو چھو رہی تھی، جیسے الوداع کہنے آئی ہو۔ پہاڑوں سے جدائی آسان نہیں تھی، مگر سفر کا جادو بھی کم نہیں ہوتا۔

                                    شیواہ گاؤں 

 پہاڑوں سے میدانی زمینوں تک بس نے جیسے ہی ڈوڈہ کو چھوڑا، درخت پیچھے ہٹنے لگے، پہاڑ چھوٹے ہونے لگے، اور راستے کھلے میدانوں میں بدلنے لگے۔ بانہال کے سرنگوں سے گزرتے ہوئے یوں لگا جیسے وقت کی سرنگ میں داخل ہو رہا ہوں، ایک ایسی دنیا سے نکل کر دوسری دنیا کی طرف جا رہا ہوں جہاں سب کچھ نیا ہوگا، مختلف ہوگا۔

                                       ڈوڈہ شہر

جموں کے قریب آتے ہی درختوں کا سبزہ کم ہونے لگا، پہاڑ پیچھے رہ گئے، اور موسم کا لمس بھی بدلا بدلا سا محسوس ہوا۔ پہاڑوں کی خنکی کی جگہ میدانی گرمی نے لے لی۔ ٹرین میں بیٹھ کر جب میں نے جموں سے دہلی کی طرف سفر کا آغاز کیا، تو کھڑکی سے باہر کا منظر یکسر بدل چکا تھا۔

ناشری ٹنل



جموں ریلوے اسٹیشن 


روشنیوں اور ہنگاموں کا شہر دہلی پہنچنے سے پہلے ہی شہر کا شور سنائی دینے لگا تھا۔ جب پلیٹ فارم پر قدم رکھا، تو ایک دم سے اردگرد کی فضا مختلف محسوس ہوئی۔ پہاڑوں کی خاموشی کے برعکس یہاں ایک مسلسل ہلچل تھی، زندگی اپنی تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔

دہلی ریلوے اسٹیشن 


دہلی کی گلیوں میں چلتے ہوئے میں نے ایک اور دنیا دریافت کی—اونچی عمارتیں، وسیع سڑکیں، اور تاریخ کے نقوش لیے ہوئے مساجد و قلعے۔ چاندنی چوک کی گلیاں اپنی پرانی داستانیں سنانے کے لیے بے قرار تھیں، اور جامع مسجد کے مینار وقت کی بلندی کو چھوتے نظر آئے۔

جامع مسجد دہلی 


قطب مینار کی خاموشی، لال قلعے کی گمشدہ صدائیں، اور دریائے جمنا کے کنارے بہتا وقت—یہ سب میرے سفر کا حصہ بن گئے۔

قطب مینار 


دو دنیاؤں کی سرحد پر ڈوڈہ کے پہاڑوں سے دہلی کے میدانوں تک کا یہ سفر میرے اندر ایک نیا زاویہ پیدا کر چکا تھا۔ پہاڑوں کی سادگی اور دہلی کی رنگینی، سکون اور شور، فطرت اور تہذیب—یہ سب ایک ساتھ میری یادوں کا حصہ بن گئے۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پہاڑ اور میدان کتنے مختلف ہوتے ہیں، مگر ان کے بیچ جو مسافت ہوتی ہے، وہی سب سے حسین ہوتی ہے۔ کیونکہ سفر ہی وہ شے ہے جو منزل سے زیادہ حسین ہوتا ہے، اور شاید یہی زندگی کا اصل حسن ہے۔

1 comment:

  1. سفر کی رونقیں دل کو لبھاتی رہ گئیں
    منزل پہ آئے تو وہ بات نہ پائی ہم نے۔

    ReplyDelete